You are currently viewing پاکستان میں پہلے عام انتخابات ہونے میں 23 سال کیوں لگے؟
  • Post author:
  • Post published:جنوری 13, 2024

برطانوی ہندوستان میں 46-1945 میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کو مؤرخین پاکستان کے قیام کے لیے فیصلہ کُن قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جو کسی مسلح مزاحمت کے بجائے سیاسی عمل کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔

تاہم متحدہ ہندوستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر قیام پذیر ہونے والے اس ملک میں قومی سطح پر عام انتخابات کی نوبت آتے آتے لگ بھگ 23 برس کا عرصہ لگا اور ملک کا پہلا آئین بھی 1956 میں جا کر بنا۔ لیکن وہ بھی صرف دو برس بعد منسوخ ہو گیا۔

اس کے مقابلے میں بھارت میں آزادی کے دو برس کے اندر ہی نہ صرف دستور سازی مکمل ہو گئی تھی بلکہ پہلے عام انتخابات بھی 1951 میں منعقد ہو گئے تھے۔

پاکستان میں آئین سازی اور عام انتخابات کے انعقاد میں ہونے والی تاخیر کے باعث ملک کو اپنے ابتدائی برسوں میں ہی کئی سیاسی اور قانونی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جو آنے والے برسوں میں بھی اس کے لیے چیلنج بنے رہے۔

لیکن وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں کے دوران نظامِ حکومت سے متعلق بنیادی نوعیت کے مسائل حل نہیں ہو سکے؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے قیامِ پاکستان اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔

بھارت اور پاکستان کے قیام کے وقت دونوں ممالک کا کوئی آئین نہیں تھا۔ سلطنتِ برطانیہ نے جو ’آزادیٔ ہند ایکٹ 1947‘ جاری کیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ جب تک یہ دونوں ریاستیں آئین سازی مکمل نہیں کرلیتیں اس وقت تک ان کا نظامِ حکومت 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت چلے گا۔

سن 1935 کے ایکٹ میں صوبوں کی قانون ساز اسمبلیوں کے لیے براہِ راست انتخابات تجویز کیے گئے تھے لیکن اس کے لیے رائے دہی کا مشروط حق دیا گیا تھا۔ اس ایکٹ میں ووٹنگ کے لیے تعلیمی قابلیت، جائیداد اور مذہب سے متعلق مختلف شرائط رکھی گئی تھیں اور ووٹنگ کی عمر کم از کم 21 برس تھی۔

سن 46-1945 میں جب ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو اس میں بھی 1935 کے ایکٹ میں فراہم کردہ شرائط کے ساتھ محدود حقِ رائے دہی یا لمیٹڈ فرنچائز دیا گیا۔ یہ انتخابات بھی جداگانہ اصول پر ہوئے جس کے مطابق تمام ووٹر صرف اپنے ہم مذہب امیدواروں کو ہی ووٹ دے سکتے تھے۔

ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی 102 میں سے 30 اور صوبائی اسمبلیوں کی 495 مسلم نشستوں میں سے 446 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کو بھی ہندو نشستوں پر اسی طرح غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی اور تمام ہندو اکثریتی صوبوں میں اس کی حکومت بن گئی۔

برصغیر اور ایوان کی تقسیم

ہندوستان کی سیاسی تاریخ پر متعدد کتابوں کی مصنف باربرا مٹکاف اپنی کتاب ’اے کنسائز ہسٹری آف انڈیا‘ میں لکھتی ہیں کہ 46-1945 کے الیکشن نے مسلم لیگ کو ہندوستان کے مسلمانوں کا واحد نمائندہ ثابت کر دیا۔ تاہم ان کے بقول کانگریس نے مسلم لیگ کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کی اور دونوں کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے۔

آئین سازی کے لیے جولائی 1946 میں 296 رکنی دستور ساز اسمبلی بنائی گئی جس میں صوبوں کو آبادی کے حساب سے نمائندگی دی گئی۔ صوبائی اسمبلیوں نے ان نشستوں کے ارکان کا بالواسطہ انتخاب کیا۔ دستور ساز اسمبلی میں کانگریس نے 208 اور مسلم لیگ نے 73 نشستیں حاصل کیں۔

ہندوستان کے ریاستی ڈھانچے اور دستور سازی پر کانگریس اور مسلم لیگ میں کسی مشترکہ لائحۂ عمل پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے سلطنتِ برطانیہ نے برصغیر کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان اور بھارت کا قیام آزادیٔ ہند ایکٹ 1947 کے تحت ہوا جس میں دونوں ریاستوں کے لیے علیحدہ علیحدہ دستور ساز اسمبلیاں بنائی گئی تھیں۔ ان دستور ساز اسمبلیوں میں وہی ارکان شامل تھے جنھیں 1945 میں منتخب ہونے والی صوبائی اسمبلیوں نے چنا تھا۔

پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں 69 ارکان شامل تھے۔ ان ارکان میں سے 44 بنگال، 17 پنجاب، چار سندھ، تین شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) اور ایک کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی میں 10 ارکان کا اضافہ کیا گیا جن میں سے چھ نشسیتں بھارت سے آنے والے مہاجرین کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل اور دستور ساز اسمبلی کے صدر بھی بنے۔

اس 79 رکنی آئین ساز اسمبلی کی بنیادی ذمے داری ملک کا آئین بنانا تھا۔ تاہم مصنف حامد خان کے مطابق بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے پیدا ہونے والے انتظامی مسائل اور کشمیر کے معاملے پر پاک بھارت تنازع کے باعث ابتدائی برسوں میں دستور سازی کا عمل سست روی کا شکار رہا۔

آئین سازی میں تاخیر

پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے 79 میں سے 60 ارکان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ لیکن خود مسلم لیگ کے اندر دستور سازی پر اختلافات پائے جاتے تھے۔

اکتوبر 1951 میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی تھی اور بیورو کریٹ غلام محمد گورنر جنرل بن گئے تھے۔

خواجہ ناظم الدین نے بنیادی اصولوں کی ایک کمیٹی بنا کر سفارشات تیار کرائیں جنھیں دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنا تھا۔ لیکن مجوزہ پارلیمان میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی کی تجویز کی وجہ سے مسلم لیگ کے اندر ہی تنازعات پیدا ہو گئے تھے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری حسن محمد کی کتاب ’جنرل الیکشنز ان پاکستان‘ کے مطابق اس دوران ایک ایک کر کے 1945 میں منتخب ہونے والی صوبائی اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونا شروع ہوگئی تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ قومی سطح پر عام انتخابات ہونے میں تو کئی دہائیاں لگیں۔ لیکن بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر پہلا براہِ راست انتخاب پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا ہوا جس کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں ترمیم کی گئی۔

مارچ 1951 میں پنجاب کا صوبائی الیکشن ہوا جس میں مسلم لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی جب کہ انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں کے الزامات بھی سامنے آئے۔

نومبر دسمبر 1951 ہی میں صوبۂ سرحد کے انتخاب میں بھی مسلم لیگ کو واضح برتری ملی۔ لیکن اپوزیشن نے دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔ سندھ میں بھی مسلم لیگ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو دھاندلی اور سرکاری وسائل استعمال کرنے کے الزامات کا بھی سامنا تھا۔

اسی دوران احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلانے کی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے مغربی پاکستان کے کئی شہروں میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔

گورنر جنرل غلام محمد اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے تھے اور انہوں نے اس بحران کو بنیاد بنا کر 17 اپریل 1953 کو خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیا۔ اس کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرر کر دیا۔

ادھر مسلم لیگ کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے مشرقی بنگال کے انتخابات 1954 تک مؤخر ہوگئے تھے اور جب انتخابات ہوئے تو اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے اتحاد ‘جگتو فرنٹ’ نے بنگال سے مسلم لیگ گا صفایا کر دیا۔

اسمبلی اور عدالت

وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ نے دستور سازی کے لیے ایک فارمولا پیش کر دیا تھا۔ اس کے تحت مجلسِ دستور ساز نے آزادیٔ ہند ایکٹ میں بعض ایسی ترامیم کیں جن کے نتیجے میں گورنر جنرل کے اختیارات محدود ہو سکتے تھے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف صفدر محمود اپنی تصنیف ’مسلم لیگ کا دورِ حکومت‘ میں لکھتے ہیں کہ غلام محمد گورنر جنرل کی حیثیت سے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اگر آئین بن جاتا تو یہ ممکن نہ ہوتا۔

ان ترامیم کے بعد غلام محمد کے خدشات مزید بڑھ گئے اور انہوں نے 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی تحلیل کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔

گورنر جنرل کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اس اقدام کے خلاف دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے (جنھیں اس وقت اسمبلی کا صدر کہا جاتا تھا) سندھ چیف کورٹ (ہائی کورٹ) سے رجوع کر لیا۔

مولوی تمیز الدین نے اپنی درخواست میں عدالت سے گورنر جنرل کے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے حکم نامے اور کابینہ کی برطرفی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ تاہم عدالت نے گورنر جنرل کے اقدام کے نتیجے میں تحلیل ہونے والی اسمبلی کو بحال نہیں کیا۔ عدالت کے اسی فیصلے کے بعد پاکستان میں ‘نظریۂ ضرورت’ کی اصطلاح سامنے آئی۔

عدالتی فیصلہ آنے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد پہلے تو دستور ساز اسمبلی کے انتخاب سے دامن بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے اپنا ہی ایک ’دستور ساز کنونشن‘ بلانے کی کوشش کی۔ تاہم عدالتی فیصلوں کی وجہ سے سے وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

صوبائی انتخابات پہلے ہی ہو چکے تھے۔ اس لیے گورنر جنرل غلام محمد کو برٹش انڈیا کی طرز پر صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے ایک بار پھر دستور ساز اسمبلی کا انتخاب کرانا پڑا۔

چوں کہ بنگال کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے نئی دستور ساز اسمبلی میں اسے حاصل اکثریت بھی ختم ہوگئی تھی۔ نئی بننے والی دستور ساز اسمبلی میں 80 نشستیں تھیں جن پر اب مسلم لیگ کے 25 ارکان تھے جب کہ جگتو فرنٹ 16 اور عوامی لیگ 12 نشستیں حاصل کر چکی تھی۔

دوسری دستور ساز اسمبلی کا اجلاس سات جولائی 1955 کو ہوا اور اس نے آئین سازی پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران اکتوبر 1955 میں ون یونٹ بھی قائم ہو گیا۔

ون یونٹ میں بلوچستان، سرحد، پنجاب اور سندھ کو ملا کر ‘مغربی پاکستان’ کے نام سے ایک نیا صوبہ بنا دیا گیا اور مشرقی بنگال کا نام تبدیل کر کے ‘مشرقی پاکستان’ کر دیا گیا۔ اس اقدام کی ملک کے دونوں حصوں میں مخالفت کی گئی تھی۔

اس دوران گورنر جنرل غلام محمد کی صحت مسلسل خراب ہونے کے باعث ان ہی کی کابینہ میں شامل طاقت ور بیورو کریٹ اسکندر مرزا نے انہیں اقتدار سے بے دخل کر کے خود گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔

دستور ساز اسمبلی آئین سازی کے لیے بہت سا کام پہلے ہی مکمل کر چکی تھی۔ 26 فروری 1956 کو پاکستان کا آئین بن گیا اور اسی برس 23 مارچ کو یہ آئین نافذ کر دیا گیا۔ اس آئین کے تحت گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔

پہلے عام انتخابات کا امکان

حامد خان کے مطابق 1956 کے آئین میں یونی کیمرل یا ایک ایوانی نظامِ حکومت تجویز کیا گیا تھا جس میں صدر، قومی اسمبلی اور مشرقی و مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیاں تجویز کی گئی تھیں۔ جب کہ مرکز میں سینیٹ کا ایوان نہیں رکھا گیا تھا۔

سن 1956 کے آئین کے تحت وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے لیے ارکان کی تعداد 300 رکھی گئی تھی۔ قومی اسمبلی میں مشرقی و مغربی پاکستان کو یکساں نمائندگی دی گئی تھی جب کہ خواتین کے لیے دونوں صوبوں سے پانچ پانچ نشستیں مختص کی گئی تھیں۔

آئین کے مطابق نومبر 1958 تک ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا۔ لیکن صدر اسکندر مرزا نے فروری 1959 تک الیکشن مؤخر کر دیا۔ اس دوران محلاتی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا اور ملک میں عام انتخابات سے قبل ہی اسکندر مرزا نے آٹھ اکتوبر 1958 کو آئین معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا۔

مارشل لا اور الیکشن

صدر اسکندر مرزا نے جس آئین کو معطل کیا تھا وہ خود بھی اسی کے تحت ملک کے صدر بنے تھے۔ اس لیے آئین کی معطلی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو فوج نے پر کیا اور اس وقت پاکستان فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیا۔

ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 27 اکتوبر 1958 کو بنیادی جمہوریتوں (بیسک ڈیموکریسیز) کا نظام متعارف کرایا جس کے تحت مشرقی و مغربی پاکستان میں چھوٹے چھوٹے 40، 40 ہزار انتخابی حلقے بنا دیے گئے۔

پاکستان کے انتخابی تاریخ پر فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) اور چرچ ورلڈ سروس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ان حلقوں میں اوسطاً 600 ووٹ تھے جنھیں بالغ حقِ رائے دہی کے ذریعے نمائندوں کا انتخاب کرنا تھا۔

اس نظام کے تحت میونسپل کونسلز اور ٹاؤن کمیٹیوں کو بعض انتظامی اختیارات دیے گئے۔ دسمبر 1959 اور جنوری 1960 کے دوران اسی نظام کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد ہوئے۔

اس انتخاب کے نتیجے میں 80 ہزار بنیادی جمہوریتوں کے ارکان منتخب ہوئے جنھیں بی ڈی ممبر بھی کہا جاتا تھا۔ ایوب خان نے ان بی ڈی ممبرز کو صدارتی اتنخاب کے لیے الیکٹورل کالج (حلقۂ انتخاب) قرار دے کر ریفرنڈم منعقد کرایا۔ اس ریفرنڈم میں ایوب خان کو 96.5 فی صد ووٹ ملے اور اس کے ذریعے جنرل ایوب خان نے آئین سازی کا اختیار بھی حاصل کرلیا۔

آئین سازی کا اختیار حاصل ہونے کے بعد ایوب خان نے پاکستان کے لیے پارلیمانی نظامِ حکومت کو ‘ناکام’ قرار دے دیا اور فروری 1960 میں ملک کے لیے نئے نظام حکومت کی تشکیل کے لیے سابق چیف جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن بنا دیا۔

ایوب خان مستقبل کے آئین سے متعلق اپنی رائے پہلے ہی واضح کرچکے تھے۔ ایوب خان ایک ایسا نظامِ حکومت چاہتے تھے جس میں مرکزی حکومت تو ہو لیکن سیاسی جماعتوں کا وجود نہ ہو۔ یکم مارچ 1960 کو ایوب خان نے انہی خطوط پر بنائے گئے نئے آئین کے نفاذ کا اعلان کردیا۔

مئی 1962 میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ یہ انتخابات بھی براہِ راست شہریوں کے ووٹس سے نہیں ہوئے تھے بلکہ صدارتی ریفرنڈم کی طرح بی ڈی ممبرز نے صوبائی و قومی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب کیا۔

اس دوران ملک میں سیاسی جماعتوں کی بحالی کے لیے قانون سازی پر اختلافات بھی زور پکڑنے لگے۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ شروع کر دیا۔

دو برس بعد جون 1962 میں صدر ایوب کی حکومت نے پاکستان میں ایک اور آئین کا نفاذ کیا۔ ماضی کے مقابلے میں یہ آئین صدارتی نظامِ حکومت پر مبنی تھا اور اس میں صدر کو اختیارات کا محور بنایا گیا تھا۔ اس آئین میں ملک کے نام سے اسلامی ہٹا کر ‘جمہوریہ پاکستان’ کر دیا گیا تھا۔

جنوری 1965 میں ملک میں صدارتی انتخابات ہوئے اور ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ اس انتخاب کا الیکٹورل کالج بھی وہی 80 ہزار بی ڈی ممبر تھے جنہوں نے پہلے ایوب خان کو ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب کیا تھا۔ ایوب خان صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے۔ البتہ مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کو 47 فی صد ووٹ ملے۔ ایوب خان کے صدر منتخب ہونے کے بعد مشرقی پاکستان میں سیاسی بے چینی مزید بڑھ گئی۔

اسی برس چھ ستمبر 1965 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔ سابق بیورو کریٹ حسن ظہیر اپنی کتاب ’سیپریشن آف ایسٹ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دخل اندازی کی مخالفت کی گئی تھی اور مشرقی پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر جنگ کے آغاز پر بھی تنقید سامنے آئی تھی۔

جنگ کے بعد 10 جنوری 1966 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ سے متعلق تنازعات کے تصفیے کے لیے معاہدۂ تاشقند ہوا۔ معاہدۂ تاشقند کے بعد صدر ایوب خان کی سیاسی مخالفت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔

فروری 1966 میں مغربی پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے معاہدۂ تاشقند پر قومی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کے مطالبات پر مبنی چھ نکات پیش کیے لیکن کانفرنس میں شریک دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ان پر بحث سے انکار کر دیا۔ تاہم سیاسی قیادت کے باہمی اختلافات کے باوجود ایوب خان کی مخالفت میں بدستور اضافہ ہوتا گیا اور اس دوران دو ایسے سیاسی رہنما ابھرنا شروع ہوئے جو آئندہ برسوں میں پاکستان کی سیاست کے مرکزی کردار ثابت ہوئے۔

جون 1966 میں ایوب خان کی کابینہ میں شامل وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند پر اپنے تحفظات کو بنیاد بناتے ہوئے استعفی دے دیا اور 1967 میں نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔

جنوری 1968 میں ایوب خان کی حکومت نے مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب اور 35 دیگر سول اور عسکری اہل کاروں پر بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کرنے کا الزام لگایا۔ ان رہنماؤں کے خلاف چلنے والا مقدمہ اگرتلہ سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔

دو فروری 1968 کو ایوب خان کو دل کا شدید دورہ پڑا۔ ان کی خرابیٔ صحت کے بعد رفتہ رفتہ ان کے تعینات کردہ آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے فوج میں اہم تقرریاں شروع کر دیں اور فوج پر ان کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔

ایوب خان کی سیاسی مشکلات بڑھنا شروع ہوئیں تو نو مئی 1968 کو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب اور دیگر ملزمان کو عارضی طور پر رہا کر دیا گیا۔ شیخ مجیب چھ نکات اور اگرتلہ سازش کیس کے باعث مشرقی پاکستان میں مرکزی سیاسی رہنما بن کر ابھر رہے تھے۔

نومبر 1968 میں ایوب خان نے اپنی حکومت کے 10 سال مکمل ہونے پر انہیں ‘خوش حالی کے 10 سال’ کے طور پر منایا۔ اس سلسلے میں ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی ملک میں حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔

اس احتجاج میں طلبہ پیش پیش تھے۔ سات نومبر 1968 کو راولپنڈی میں ایسے ہی ایک احتجاج کے دوران طلبہ اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا جس نے اس احتجاجی لہر کو ایوب خان کے خلاف تحریک میں بدل دیا۔

دسمبر 1968 میں ایوب خان کے خلاف احتجاج میں بعض مظاہرین کی ہلاکت کے بعد ملک کے دونوں حصوں میں حالات کنٹرول سے باہر ہونے لگے۔

ایوب خان کے خلاف احتجاج شدید ہونے کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کا مطالبہ بھی سر اٹھانے لگا۔ حالات کو قابو کرنے کے لیے ایوب خان نے اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی اور کئی گرفتار رہنماؤں کو رہا بھی کر دیا۔ ایوب خان نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے فروری، مارچ 1969 میں گول میز کانفرنس کا سلسلہ شروع کیا جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا۔

دس برس تک صدر رہنے والے ایوب خان نے اس سیاسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے عام انتخابات کے اعلان یا کوئی سیاسی اقدام کرنے کے بجائے 24 مارچ 1969 کو پاکستان آرمی کے کمانڈر ان چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو خط لکھ کر ملکی امور اپنے اختیار میں لینے کی درخواست کر دی اور اس طرح ملک میں ایک اور مارشل لا نافذ ہو گیا۔

مارشل لا سے انتخابات تک

اگلے ہی روز جنرل یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا اور 1962 کا آئین منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد اپریل 1969 میں یحییٰ خان نے مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی ڈیڈ لاک دور کرنے کے لیے سیاسی قیادت سے بات چیت کا آغاز کیا۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں 28 نومبر 1969 کو یحییٰ خان نے ملک میں پہلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے مطابق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پانچ اکتوبر 1970 کو پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے انعقاد ہونا تھا۔

اس اعلان کے ساتھ ہی یکم جنوری 1970 سے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی۔ جس کے بعد ملک میں انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا۔ اسے پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین انتخابی مہم بھی قرار دیا جاتا ہے جو لگ بھگ ایک سال تک جاری رہی۔

انتخابات کے انعقاد سے قبل چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یحییٰ خان نے 30 مارچ 1970 کو مغربی پاکستان کا صوبہ تحلیل کر دیا جس کے بعد مغربی حصے میں پنچاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال ہو گئی۔

سن 1962 کے آئین کی منسوخی کے بعد جنرل یحییٰ خان نے ملک کا انتظام چلانے کے لیے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) نافذ کیا جس میں صوبوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی اور دیگر انتخابی قواعد کی تفصیلات شامل تھیں۔

ایل ایف او میں منتخب ہونے والی دستور ساز اسمبلی کو 120 دنوں کے اندر آئین بنانے کا پابند کیا گیا تھا۔ لیکن اس آئین کا نفاذ صدر یحییٰ خان کی منظوری سے مشروط تھا۔ بعد ازاں الیکشن شیڈول میں تبدیلی کر کے قومی اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ سات دسمبر 1970 کردی گئی۔

الیکشن سے قبل نومبر 1970 میں مشرقی پاکستان میں تباہ کن سمندری طوفان آیا جس میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ لیکن قومی انتخابات کا شیڈول متاثر نہیں ہوا اور قیام پاکستان کے لگ بھگ 23 برس بعد سات دسمبر 1970 کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہو گئے۔

ان انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشستیں پیپلز پارٹی نے جیتیں۔

انتخابی نتائج آنے کے بعد عوامی لیگ کو دستور ساز اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہو گئی لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان شراکتِ اقتدار پر کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا۔

ملک کے ابتدائی دور میں سیاسی عدم استحکام اور فوج کی مداخلت کے باعث قومی سطح پر ہونے والے عام انتخابات میں پہلے تو لگ بھگ 23 سال لگ گئے۔

جب انتخابات ہوئے بھی تو مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے بنیادی مسائل اس قدر پیچیدہ ہو چکے تھے کہ الیکشن ان مسائل کا حل ثابت ہونے کے بجائے ایک ایسے تنازع کی بنیاد بنے جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔

وائس آف امریکہ